یہ مرض عموماً بیس سے پچپن برس کے بالغوں میں ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا تناسب تین گنا ہوتا ہے۔ عام علامت تو دونوں ہاتھوں کے جوڑوں میں ورم ہوتی ہے اور ساتھ ہی انگلیوں کےپوروں میں بھی ورم ہوجاتا ہے
بوڑھے لوگوں میں جوڑوں کے ورم اور درد کی شکایت بہت سننے میں آئی ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ مرض ہے جس میں ہاتھ اور پیروں کے جوڑوں میں بہت درد ہوتا ہے۔ جوڑوں کے ورم کو وم وجع مفاصل یا آرتھرائٹس اور اس سے ہونے والے درد کو وجع مفاصل یا گنٹھیا کا درد کہا جاتا ہے۔ اس کے مختلف اسباب ہیں جن میں سے کچھ معلوم اور کچھ نامعلوم ہیں۔ یہ معتدل آب و ہوا کی بیماری ہے اور ہر عمر کے افراد میں ہوسکتی ہے۔ کبھی ایک جوڑ اور کبھی کئی جوڑ متاثر ہوتے ہیں۔اس کی چار قسمیں ہیں روماتزمی جوڑوں کا ورم‘ ہڈیوں کے جوڑوں کا ورم‘ ریڑھ کی ہڈی کی سختی اور چوٹ سے پیدا ہونے والا جوڑوں کا ورم۔ روماتزمی جوڑوں کے درد کے بارے میں خیال ہے کہ یہ خود مدافعتی مرض ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر جراثیمی بیماری کا حملہ باہر سے ہوتا ہے اور جسم اس کی مدافعت کرتا ہے۔ یہ مرض عموماً بیس سے پچپن برس کے بالغوں میں ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا تناسب تین گنا ہوتا ہے۔ عام علامت تو دونوں ہاتھوں کے جوڑوں میں ورم ہوتی ہے اور ساتھ ہی انگلیوں کےپوروں میں بھی ورم ہوجاتا ہے۔ مریض کو وزن کم ہوجاتا ہے اس کی طبیعت خراب رہنے لگتی ہے کاہلی کا غلبہ رہتا ہے اگر شدید حالت ہو تو چکتوں کے ساتھ بخار آتاہے ورنہ یہ تکلیف بتدریج کئی ہفتوں میں جاکر بڑھتی ہے۔ہڈیوں کا ورم مفاصل بڑھاپے کے عمل کا حصہ ہے۔ اس میں وہ جوڑ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جن پر بوجھ پڑتا ہے۔ مثلاً کولہے گھٹنے اور ریڑھ کی ہڈی‘ البتہ عورتوں کے زیادہ تر ہاتھ متاثر ہوتے ہیں۔ خصوصاً انگلیوں کی اوپر کی پوریں اور انگوٹھے کی جڑ‘ پہلی علامات میں درد اور سختی ظاہر ہوتی ہے پھر ورم آتا ہے اور جوڑ کی شکل بدلنے لگتی ہے۔ اگر کسی کو یہ شک ہو کہ اسے جوڑوں کے ورم کی تکلیف ہے تو معالج سے مشورہ ضروری ہے۔ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اپنا علاج خود بھی نہیں کرنا چاہیےا گر تکلیف بچے کو ہو (مثلاً اسٹلز ڈیزیز) تو فوری کارروائی کریں۔ کہیں سستی اور تاخیر مستقل معذوری کا باعث نہ بن جائے۔ ورم مفاصل کے ساتھ بخار اور جوڑوں کا زیادہ ورم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس صورت میں علاج ہسپتال میں ہو۔ورزش اور مالش: جوڑوں کے ورم میں ورزش اور مالش کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جب ورم نہ ہو اس وقت جوڑ کو سخت ہونے سے بچانے کیلئے اور عضلات کو طاقت دینے کیلئے ورزش ضروری ہوتی ہے۔ ورزش اورمالش کے ماہر خصوصی ورزشیں تجویز کرتے ہیں۔سرجری: ناکارہ جوڑ کو بدلا جاسکتا ہے لیکن یہ فیصلہ انتہائی غور و خوض کے بعد کرنا چاہیے اور اس کے فوائد و نقصانات کا اندازہ بھی کرلینا چاہیے۔ آج کل اس مرض میں افاقہ پہنچانے والی مؤثر تدابیر دستیاب ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔چند احتیاطی نکات: جن لوگوں کے مکانوں میں سیڑھیاں ہیں وہ سیڑھیوں کے دائیں بائیں ریلنگ لگوالیں۔ باتھ روم کے چکنے فرش پر رف قسم کے میٹ رکھیں تاکہ آدمی پھسل نہ سکے۔ گھر میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں سامان لے جانے کیلئے پہیوں والی گاڑی استعمال کریں۔ بجلی کا بٹن بند کرنے یا کھولنے کیلئے ڈوری والے سوئچ لگائیں‘ ڈوری کا سرا مریض کے بستر پر ہو۔ اگر بجلی کے ساکٹ فرش کے قریب لگے ہوئے ہیں تو انہیں کم از کم فرش سے تین فٹ کی بلندی پرلگوائیں۔ اگر کسی گھر میں وہیل چیئر والا مریض ہے تو ویل چیئر کی چوڑائی کے لحاظ سے دروازوں کو بڑا کروالیں۔ جس گھر میں ویل چیئر والا مریض ہو اس کے بیرونی دروازے پر سیڑھیوں کے بجائے پشتہ (ڈھلوان) بنوالیں تاکہ ویل چیئر آسانی سے اوپر نیچے جاسکے۔ جو لوگ جوڑوں کی تکلیف میں باغبانی کا مشغلہ اختیار کرتے ہیں وہ باغبانی کے آلات پر لمبے ہینڈل لگوالیں۔تدابیر: گرم پانی سے تر کیا ہوا تولیہ اور نیم گرم پانی کا غسل اکڑے ہوئے اور درد والے جوڑ کو نرم کرتا ہے۔ صبح جب اکڑن زیادہ ہوتی ہے اس وقت اور شام کو جب اعضاء کھنچ جاتے ہیں نیم گرم پانی کی ٹکور کریں۔ اگرچہ کپڑے کی خشک گدی کا استعمال زیادہ آسان ہے لیکن تر گدی کا استعمال بہتر ہے۔ یہ خون کو گردش میں لاتی ہے اور اس سے لچک پیدا ہوتی ہے۔ اس سے ورزش کرنا آسان ہو جاتا ہے اس لیے اکثر لوگ گرم ٹکور کے بعد ورزش کرتے ہیں۔اگر گرم اور تر گدی خون میں گردش جاری کرتی ہےتو برف یا ٹھنڈی ٹکور ورم کو اتارتی ہے۔ بعض لوگ گرم اور ٹھنڈی ٹکور ایک ساتھ کرتے ہیں۔ پہلے پندرہ منٹ گرم ٹکور اور پھر پندرہ منٹ ٹھنڈی ٹکور۔ مریض کو چاہیے کہ وہ خود اس کو آزمائے کہ اس کیلئے گرم ٹکور مفید ہے یاٹھنڈی ٹکور۔ جوڑوں کے درد کے مریض جوڑوں کو ہلانا پسند نہیں کرتے۔ وہ درد سے بچنے کیلئے ایسا کرتے ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ اگر جوڑ کو حرکت نہ دی جائے تو وہ کمزور ہوجاتا ہے اور سکڑ جاتا ہے۔ سکڑنے کا مطلب ہے خلیات کی کمی۔ خلیات کی کمی کی وجہ سے سارا زور براہ راست جوڑ کی ہڈی اور کرکری ہڈی پر پڑتا ہے۔ اس میں زیادہ درد اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اعضاء کو مضبوط رکھا جائے۔ ڈاکٹر میکل وین کہتے ہیں: ’’اگر مجھے صرف ایک ہی علاج کو چننا ہو تو میں ورزش کوچُنوں گا‘‘ ورزش سے جوڑ میں لچک اور مضبوطی آتی ہے۔ چند ورزشیں: چت لیٹ جائیے ہاتھ سر کے نیچے رکھئے‘ گھٹنے اٹھے ہوئے اور پاوں فرش پر لگے ہوئے ہوں۔ گہری سانس لیں اور چھاتی کو سانس کےدوران اوپر اٹھائیں۔ سانس دو سیکنڈ تک روکیں پھر سانس کو چھوڑدیں یہ عمل پانچ بار دہرائیں۔ کئی دن کی مشق کے بعد ورزش کرنے کی تعداد کو آہستہ آہستہ بڑھاتے ہوئے پندرہ سے بیس منٹ تک لے جائیں۔کمر کی لچک: چت لیٹ جائیں‘ گھٹنے اٹھے ہوئے پاؤں زمین پر رکھے ہوئے اور بازو چھت کی طرف اٹھے ہوئے۔ سر اور بازوؤں کو دائیں طرف اور گھٹنوں کو بائیں طرف موڑئیے۔ پھر سر اور بازوؤں کو بائیں طرف اور گھٹنوں کو دائیں طرف موڑئیے۔ پانچ بار ایسا کیجئے بعد میں اس تعداد کو آہستہ آہستہ بڑھا کر دس تک لے جائیے۔
سائیکل چلانا: چت لیٹئے۔ مڑے ہوئے گھٹنوں کے ساتھ ٹانگوں کو اوپر لے جائیے اور ہوا میں پیڈل چلانے کی طرح ٹانگوں کو لائیے۔ یہ حرکت آہستہ اور ہم آہنگ ہو۔ چھ سیکنڈ ایسا کیجئے پھر آرام کیجئے۔ اس کو پانچ بار دہرائیے۔ بعد میں آہستہ آہستہ بڑھا کر دس بار تک لے جائیے۔جوڑوں کے درد کیلئے آسان طبی نسخہ: ھوالشافی: لونگ‘ سہاگہ‘ ایلویرا‘ مرچ سیاہ ہم وزن لے کر گھیگوار کے پانی میں خوب باریک پیس کر ایک ایک رتی کی گولیاں بنالیں اور چار گولیاں رات کو دودھ کے ساتھ لیں۔ نسخہ نمبر2: سورنجاں تلخ ایک تولہ‘ گوگل بریاں (بھنا ہوا) تین تولہ‘ ریوند چینی دو تولہ‘ مصبر دو تولہ‘ تمام ادویہ کو پیس کر باریک سفوف بنالیں اور دو دو رتی گولیاں تیار کرلیں اور چار چار گولیاں صبح و شام کھائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں